Shah Jahan Masjid Thatta | شاہ جہاں مسجد ٹھٹھہ
Matar Gasht Matar Gasht
6.75K subscribers
92 views
6

 Published On Jun 11, 2024

#sindhhistory #matargasht #masjid

World's most unique mosque - Shah Jahan Masjid Thatta - Sindh Pakistan
Shah Jahan Masjid UNSEEN Special Documentary | Thatta Travel
شاہ جہاں مسجد100گنبدوالی عظیم الشان تاریخی مسجد
منفر د طرزِ تعمیر کی بدولت بغیر لائوڈ اسپیکر کے آواز پوری مسجد میں گونجتی ہے


شاہ جہان مسجد
(تحریر و تحقیق: شوکت علی مظفر
اگرچہ دور مغلیہ میں کافی عمارات تعمیر ہوئیں جن میں دہلی اور لاہور کے شاہی قلعے، تاج محل اور دہلی کی جامع مسجد بھی شامل ہیں مگر سندھ کی سر زمین پر واقع جامع مسجد شاہجہاں اپنی مثال آپ ہے۔
ٹھٹھہ، صدیوں سے سندھ کا تاریخی دارالحکومت رہا ہے اور یہ مرکزی مسجد جمعہ اور عیدین کے اجتماعات کیلئے منفرد اہمیت کی حامل رہی۔ کراچی سے لگ بھگ سو کلو میٹر کے فاصلے پر یہ عظیم الشان مسجد آج بھی پروقار انداز سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔
بیرونی سڑک پر جالی دار آ ہنی دروازے سے بارہ دری ٹائپ راہداری اور اس کے آس پاس ہریالی اور بلند قامت جھومتے درخت آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار احساس میں بھی مبتلا کرتے ہیں اور قدم بے ساختہ مسجد کی جانب اُٹھتے چلے جاتے ہیں۔

روایتوں کے مطابق جب سن 1644میں جامع مسجد شاہ جہاں کو مسمار کر دیا گیا تھا، تب مغل گورنر کے مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ اس مسجد کی تعمیر نو کے لیے نئی بنیادیں کسی ایسے شخص سے رکھوائی جائیں جس سے زندگی بھر کوئی گناہ سرزد نہ ہوا۔ چنانچہ ہر طرف یہ اعلان کرا دیا گیا کہ اس اہلیت کا حامل فرد رات کی تاریکی میں آئے اور مسجد کی بنیاد میں ایک پتھر رکھ دے۔اس اعلان کے اگلی صبح مسجد کی بنیادوں میں 450اینٹیں رکھی ملیں۔ یوں اس مسجد کی تعمیر نو کا مرحلہ شروع ہوا۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے اور کتنا افسانہ لیکن ایک بات تاریخی حوالوں سے درست ہے اور وہ ہے اس کا سن تعمیر ۔ یہ شاہکار مسجد 1644 میں تعمیر ہونا شروع ہوئی اور تین سال کے عرصے میں اسے مکمل کیا گیا۔ مسجد کا کل رقبہ تقریبا چھ ہزار تین سو سولہ مربع گز ہے۔ اُس دور کے حساب سے مسجد کی تعمیر پر نو لاکھ شاہجہانی روپے صرف ہوئے جو شاہی خزانے سے ادا کئے گئے۔

مسجد اگرچہ ایک ہی منزلہ ہے مگرمضبوطی کی غرض سے اس کی بنیادیں بارہ سے پندرہ فٹ گہری ہیں۔ بنیاد میں پہاڑی پتھراستعمال کیا گیا اور مسجد میں تین جانب سے داخلے کیلئے پانچ دروازے بنائے گئے جن میں سے ایک مرکزی دروازہ اور دو چھوٹے دروازے اطراف میں ہیں جبکہ ایک ایک دروازہ شمالی اور جنوبی دیواروں کے وسط میں ہیں۔ اوپر جانے کیلئے داخلی دروازے کے قریب اور مسجد کے محراب کے پاس بل کھاتی سیڑھیاں موجود ہیں مگر عام آمدو رفت کیلئے بند کیے جانے کے سبب اب ان سیڑھیوں پر چمگادڑوں کا قبضہ ہے۔ دوچار سیڑھی چڑھ کر اوپر جانے کی کوشش کی جائے تو ان چمگادڑوں میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور ان کی آوازوں سے اوپر جانے والا اپنے اِرادے سے باز آجاتا ہے۔

لال اینٹوں کی سادہ مگر عظیم الشان مسجد کی عمارت ہے جس کی دیواروں پر ٹائل ورک برصغیر ہند و پاک کی ثقافت کو واضح کرتا ہے ۔ نیلے اور سفید رنگ کے تابکاری موزائک ٹائلز ، سجیلے پھولوں کے پیٹرن پر سترھویں صدی کے ایرانی کاشی کے کام کا خوبصورت امتزاج ہے۔گنبدوں کی ترتیب اور ہوا کی آمد ورفت کا انتظام کچھ اس خوبی سے رکھا گیا ہے کہ تلاوت و خطبے کی آواز پوری مسجد میں کسی صوتی آلے کے بغیر باآسانی سنائی دیتی ہے ۔ مسجد میں ہوا اور روشنی کیلئے دیواروں میں نہایت کشادہ اور جالی دار روشن دار بنائے گئے جوطاق کا بھی کام دیتے ہیں۔ان روشن دانوں کی ترتیب بھی ایک خاص انداز میں رکھی گئی ہے ۔ اس کی بدولت مسجد کے کسی بھی حصے میں چلے جایئے ہوا اور روشنی کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ سخت گرمی یا بے انتہا سردی موسم کی شدت کا احساس اندرونی حصوں میں بالکل نہیں ہوتا۔
مسجد کے صحن میں ایک پتھر کی جائے نمازبھی تعمیر کی گئی ہے جس کے کناروں پر باقاعدہ نقش و نگار کندہ ہیں۔

ستر کی دہائی میں سرکاری طور پر کرائے جانے والی ناقص تعمیر نو نے اس مسجد کے منفرد سمعی نظام سمیت اس کے اصل خدوخال کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ دوران مرمت بہت سی چیزوں کو تبدیل کر دیا گیا اور اس کے نفیس کام کے ساتھ قدرتی گونج کا نظام بھی خراب ہو گیا۔''صوبہ سندھ کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر قاسم علی قاسم کے مطابق '' مرمت سے پیشتر کسی ماہر آثار قدیمہ سے مشورہ نہیں کیا گیا، جس سے مسجد کی بنیادی خوبصورتی بہت متاثر ہوئی۔ مسجد کی محرابی تعمیر والا داخلی دروازہ، جس پر آیات قرآنی نقش تھیں، مرمت کے دوران ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا جس کے بعد اسے کراچی میں قومی عجائب گھر میں رکھا گیا اور وہاں سے کباڑ کی نظر کر دیا گیا۔''

وضوکی غرض سے مسجد میں ایک جانب خاصا وسیع وعریض حوض بناہوا ہے۔ گو کہ اب وہ اکثرو بیشتر خالی رہتا ہے لیکن اس کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ نمازیوں کے وضو کرنے کی غرض سے ٹوٹیاں نصب ہیں۔ یہ مسجد اس قدر وسیع ہے کہ یہاں ایک وقت میں بیس ہزار سے زائد نماز ی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اب بھی پنج وقتہ نماز کے علاوہ جمعہ اور عیدین پر لوگ یہیں نماز اَدا کرنا پسند کرتے ہیں۔ مسجد کے خطیب و امام کا سلسلہ بھی شاہجہاں کے دور سے ایک ہی خاندان میں چلا آرہا ہے۔ موجودہ خطیب اور امام مسجد کا نام قاری عبدالباسط صدیقی ہے۔ ان کے شجرے سے تعلق رکھنے والے افراد نسل در نسل اس مسجد میں خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔

مسجد سے باہر کی طرف نکلیں تو شاہی پارک سے ہوتے ہوئے آہنی دروازے کے ساتھ ہی ربڑی، آرائشی اشیاء ، کھلونے اور دیگر چیزوں کے اسٹالز موجود ہیں۔ ہم جب صبح آئے تھے اس وقت ایسا کچھ نہ تھا لیکن جاتے وقت یہ روایتی مختصر سا بازار بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے۔


Shah Jahan Mosque Thatta History
Mughal Emperor
Shahjahan Masjid | Sindh
#heritage
#masjid
#Oldheritage
#Funetameer
#mughalempire
#Shahjahanmasjid
#hestoricalplace
#matargashti
#TravelyMyPakistan #TravelPakistan #Pakistan

show more

Share/Embed